جدیدیت کا دور دورہ ہے،
سائنسی اور مادی ترقی کی محیر العقول ایجادات
آئے دن بڑھ رہی ہیں، دنیا گلوبلائزشین کا روپ دھار چکی
ہے۔ انسان مصروف سے مصروف تر بنتا چلا جارہا ہے، اس کا اٹھنے والا ہر قدم
زندگی کی محدود سلطنت سے نکل کر موت کی منزل کی طرف مسلسل
بڑھ رہا ہے۔
اس کو وہ وقت یاد ہی نہیں
ہے کہ جب اس کے خالق اور مالک نے اس کو وجود بخشا، گل وآب کو انسانی سانچے میں
ڈھالا، عقل وخرد کو اس کے خمیر میں گوندا، نفع ونقصان کی پہچان
دی، کامیابی اور ناکامی کے رستوں کی نشاندہی
بھی کردی، وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ․
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا،
اس کی فطرت میں ذہول ونسیان کا عنصر بھی تھا؛ اس لیے
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت
کا سلسلہ جاری کیا؛ تاکہ ”عہدِ الست“ ذہن نشین رہے، یہاں
تک کہ خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت
آمد ہوئی۔ قصرِ نبوت کی تکمیل سے اتمامِ نعمت کا عظیم
احسان بھی ہوا۔
اسلام آیا․․․․
ہدایت کے چراغ جگمگانے لگے، کفر وشرک کے اندھیرے چھٹنے لگے، معاشرتی
بدتہذیبی کافور ہونے لگی، ادیانِ عالم میں اسلام کی
ہمہ جہتی اور عالمگیریت کا سِکَّہ چلنے لگا۔
خالقِ دوجہاں کی طرف سے محبوبِ
دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا دستور عطا کیاگیا
کہ جس میں امیر غریب، کالے گورے، عربی عجمی، شہری
دیہاتی، نسب نسل، قوم قبیلہ، برادری وخاندان کی
کمتری وبرتری کا تصور مٹ گیا۔ امن وسکون، عدل وانصاف، چین
وراحت، فرحت وسرور صرف عرب میں ہی نہیں؛ بلکہ کائنات کے چپے چپے
میں عام وتام ہوگیا۔ یعنی اسلام نے عرب کی
حدود سے تجاوز کرکے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے
لیا، پھیلا اور پھیلتا ہی چلا گیا۔
چونکہ اسلام ایک جامع مذہب کی
حیثیت سے اپنا تعارف کراتا ہے؛ اس لیے دنیا بھر کے
انسانوں کی قبل از پیدائش تا بعدازو فات ساری رہنمائی کی
ذمہ داری لیتا ہے، جو لوگ اس کو محض عبادات کے خود ساختہ خول میں
قید کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ یہ بھی ایک
ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام کے مسلمات، بنیادی نظریات
اور اساسی عقائد میں زمانے کے بدلنے سے کوئی تبدیلی
نہیں آسکتی۔
توحید کل بھی لازمی
تھی، رسالت پر ایمان کل بھی ضروری تھا، ختم رسالت پر ایقان
کل بھی فرض تھا، آخرت پر اعتقاد کل بھی ابدی نجات کا ایک
ذریعہ تھا اور یہ ساری باتیں آج بھی ہیں اور
ہمیشہ ہی رہیں گی۔
ایک طرف اسلام ہے تو دوسری
طرف کفر بھی موجود ہے۔ یہودیت، عیسائیت، مورتیوں
اور بتوں کے سامنے جبینِ نیاز جھکانے والے، قبروں اور آستانوں پر ناک
رگڑنے والے، آگ اور ستاروں کی پرستش کرنے والے، درختوں اور پتھروں کو معبود
ماننے والے، سورج وچاند کو الٰہ سمجھنے والے اور دیگر اہل باطل اپنی
اپنی کاوشوں میں مگن ہیں۔
ہمارے زمانے میں اہلِ اسلام کو
راہ راست سے ہٹانے اور ورغلانے کے لیے کئی طرح کے حربے استعمال کیے
جارہے ہیں، ٹی وی کی روشنی سے لے کر موبائل کی
اسکرین تک،کتاب کی تحریر سے لے کر منبر ومحراب کی تقریر
تک؛ ہرطرف سے دشمنِ دین چومکھی لڑائی لڑرہاہے، ذہنی غلامی
سے لے کر جسمانی تشدد تک، اہلِ اسلام کو ہر طرح کے شکنجوں میں کسا
جارہاہے۔
اسی میں دشمنانِ دین
کی پیداوار مخلوق بھی نمودار ہورہی ہے، نت نئے فتنے جنم
لے رہے ہیں، ہر روز کوئی ”اسکالر“ اور ”پروفیسر“ اٹھ کر احکامِ
اسلام اور عقائدِ اہل السنة کو تختہٴ مشق بنائے ہوئے ہے۔ مسلمِ قوم کو
کفار کے کچوکے پہلے ہی زخمی کرچکے ہیں، پھر اہل الحاد وبدعت کے
ہاتھوں ان پر نمک پاشی کا ستم، الٰہی! اس قوم کا کیا
ہوگا!!!
لیکن اے مسلمان! تجھے تیرے
خالق ومالک نے فطرتِ سلیم اور عقلِ مستقیم عطا فرمائی، ایمان
کی عظیم نعمت سے نوازا، مجھے قرآن دیا، اپنے محبوب صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیا، اپنے برگزیدہ بندوں کا کردار دیا،
اپنے اسلاف اور اکابر کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے باطل کو چاروں شانے چت کردے۔
میدان، کارزار بنے ہوئے ہیں،
رزم گاہیں گرم ہیں، مختلف تقاضوں کے پیشِ نظرکئی ایک
محاذ سجے ہوئے ہیں، ہر ایک دامن پھیلا پھیلا کر اپنی
طرف بلارہا ہے، سب سے پہلا میدان عقیدے کا ہے، اس کے لیے دینی
مدارس میں وہ تعلیم دی جارہی ہے، جو مکہ مکرمہ میں
کوہِ صفا پر، غارِحراء میں مدینہ منورہ کی سرزمین پر اور
طائف وحجاز کے تپتے صحراؤں سے لے کر بیت المقدس تک اور وہاں سے عرشِ معلی
تک نبی علیہ السلام کو ملی۔ وحیِ الٰہی
اور احادیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ رہنما اصول
پڑھائے اور سکھلائے جارہے ہیں، جس کی معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں علماءِ کرام
وحی کی روشنی بانٹ رہے ہیں، علومِ نبوت کی ضوفشانی
سے کرہٴ ارض کو منور کررہے ہیں، اصلاح معاشرہ میں سب سے اہم
کردار ادا کررہے ہیں، بھولی بھٹکی انسانیت کو وہی
درس دے رہے ہیں، جس سے خود انسان میں اور جس معاشرے میں وہ سانس
لے رہا ہے دونوں میں سکون نصیب ہوگا۔
علماء کی مجالس میں شرکت
کرنے والے اس سے بخوبی آگاہ ہوں گے کہ ان کی زبان پر خدائے لم یزل
کا وہ فرمان جاری رہتا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہ جَمِیْعاً وَّلَا
تَفَرَّقُوْا۔ اور ہادیِ
عالم، سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انَّمَا أخَافُ عَلی
أمَّتِيْ أئمَّةً مُضِلِّیْنَ قَالَ وَقَالَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِّنْ أمَّتِیْ عَلی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ
لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ حَتّٰی یَأتِیَ
أمْرُ اللہِ(سنن ترمذی،ج۲، ص۴۹۴)
آج دیکھاجائے تو ہم اسی دور
میں ہیں۔ ہر طرف فتنوں کی یلغار ہے، وہی لوگ
دین دشمنی کررہے ہیں جن کو لسانِ نبوت نے ائمہٴ مُضلِّین
(گمراہ گروہوں کے سردار) قرار دیا ہے۔ ان سے بچاؤ کی صورت وہی
ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمائی۔ اہل السنة والجماعة ہی قیامت کے دن کامیاب
ہوں گے۔
جو راہزن، راہبروں کے روپ میں
عوام کے ایمان وعمل برباد کررہے ہیں ہم ایسے لوگوں کی
نشاندہی کرکے عقائد ونظریات اور مسائل کا تحفظ کررہے ہیں، ان کے
بارے میں ہمارے ہاں مرکز اہل السنة والجماعة میں علماء کرام کے لیے
ایک سال کے کورس کا انعقاد کیاجاتا ہے،جس میں درج ذیل
علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں:
تجوید وقرأت،اصولِ تفسیر،
تفسیر، اصولِ حدیث، حدیث، اصولِ فقہ، فقہ، اصولِ مناظرہ،
مناظرہ، تقابلِ ادیان، حفظِ احادیث، اجراءِ صرف ونحو، تقریر،
مقالہ نگاری، فلکیات، کمپیوٹر وغیرہ۔
اس کے ساتھ ساتھ تربیتی
مزاج کو ملحوظ رکھتے ہوئے خانقاہی ماحول بھی میسر کیاجاتا
ہے؛ تاکہ تصوف وسلوک، تزکیہ واحسان، طریقت ومعرفت کے اس ماحول میں
ان کی اصلاحِ نفس ممکن ہو۔ اس کا اہتمام اس لیے کیا جاتا
ہے؛ تاکہ یہی سربراہانِ قوم کل کو قیادت وسیادت کریں
گے تو صحیح عقیدہ اور صحیح مسائل بتائیں گے۔ اس کے
لیے پوری ”سنی“ قوم سے التماس ہے کہ ہم سب کے لیے دعا
فرمائیں، اللہ تعالیٰ دین کی خدمت کے لیے
قبول فرمائے اور پھر اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں بھی قبول
فرمائے۔ آمین
$
$
$
------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 6،
جلد: 98 ، شعبان 1435 ہجری مطابق جون 2014ء